بڑھ رہی ہے دل کی دھڑکن آندھیوں دھیرے چلو
پھر کوئی ٹوٹے نہ درپن آندھیوں دھیرے چلو
یہ چمن سارا کا سارا آج کل خطرے میں ہے
ہر طرف ہے آگ دشمن آندھیوں دھیرے چلو
ایک یگ کے بعد بادل کا نیا آنچل ملا
خوش بہت ہے آج ساون آندھیوں دھیرے چلو
لکھ رہی ہے خوشبوؤں کو خط کمل کی پنکھڑی
کھل اٹھا ہے جھیل کا من آندھیوں آندھیوں دھیرے چلو
ساری سانسیں آندھیاں ہیں اور میں مرتھل کی ریت
اور بڑھ جاتی ہے الجھن آندھیوں دھیرے چلو
ساتھ ان پچھوا ہواؤں کا بہت اچھا نہیں
کہہ رہا پروائی کا من آندھیوں دھیرے چلو
یہ جو پھولوں کا نگر تھا اس میں ہی کانٹوں سے اب
بھر گیا ہر ایک آنگن آندھیوں دھیرے چلو
جگ گئے تو زہر بھر دیں گے فضاؤں میں کنورؔ
کھل نہ جائیں سانپ کے پھن آندھیوں دھیرے چلو
غزل
بڑھ رہی ہے دل کی دھڑکن آندھیوں دھیرے چلو
کنور بے چین