بڑھ رہے ہیں شام کے موہوم سائے چل پڑو
زندگی کی لاش کاندھوں پر اٹھائے چل پڑو
خیر مقدم کر رہی ہیں ٹھوکریں کس شان سے
پاؤں کے چھالے یہ کہہ کر مسکرائے چل پڑو
اوڑھ لو سر پر دکانوں دفتروں کے سائباں
جان لیوا ہیں مکانوں کے کرائے چل پڑو
پھر قدوم شوق کو چھونے لگی آوارگی
پھر بلاوے کوچۂ جاناں سے آئے چل پڑو
آج ٹوٹی ہے لب احساس سے مہر سکوت
آج تنہائی نے تلوے گدگدائے چل پڑو
مڑ کے مت دیکھو زمانے کو کہ بت بن جاؤ گے
آنکھ میچے ہاتھ باندھے سر جھکائے چل پڑو
وقت کے صحرا میں ننگے پاؤں ٹھہرے ہو سلیمؔ
دھوپ کی شدت یکایک بڑھ نہ جائے چل پڑو
غزل
بڑھ رہے ہیں شام کے موہوم سائے چل پڑو
سردار سلیم