بڑے نازوں سے دل میں جلوۂ جانانہ آتا ہے
یہ گھر جس نے بنایا ہے وہ وہ صاحب خانہ آتا ہے
خدا کے واسطے منہ سے لگا دے خم کے خم ساقی
بڑا گھنگھور بادل جانب مے خانہ آتا ہے
نکل جاتا ہے منہ سے نام ان کا باتوں باتوں میں
زباں پر جو نہ آنا تھا وہ بیتابانہ آتا ہے
نکلتی ہے کسی پر جھوم کر وہ مجھ پہ گرتی ہے
تمہاری تیغ کو کیا شیوۂ مستانہ آتا ہے
بہار آخر ہوئی ہے قدرؔ کی تربت پہ میلا ہے
یہاں بیڑی بڑھانے کو ہر اک دیوانہ آتا ہے
غزل
بڑے نازوں سے دل میں جلوۂ جانانہ آتا ہے
قدر بلگرامی