بڑے خلوص سے دامن پسارتا ہے کوئی
خدا کو جیسے زمیں پر اتارتا ہے کوئی
نہ پوچھ کیا ترے ملنے کی آس ہوتی ہے
کہاں گزرتی ہے کیسے گزارتا ہے کوئی
بجا ہے شرط وفا شرط زندگی بھی تو ہو
بچا سکے تو بچا لے کہ ہارتا ہے کوئی
وہ کون شخص ہے کیا نام ہے خدا جانے
اندھیری رات ہے کس کو پکارتا ہے کوئی
چلا ہوں پھر سپر تاب غم اٹھائے ہوئے
نشاط وصل کے رستہ پہ مارتا ہے کوئی
چراغ رکھ کے سر شام دل کے زینہ پر
مجھے خبر نہیں ہوتی سدھارتا ہے کوئی
یہ سر کا بوجھ نہیں دل کا بوجھ ہے اسے شاذؔ
کہاں اترتا ہے لیکن اتارتا ہے کوئی
غزل
بڑے خلوص سے دامن پسارتا ہے کوئی
شاذ تمکنت