بڑے حساب سے عزت بچانی پڑتی ہے
ہمیشہ جھوٹی کہانی سنانی پڑتی ہے
تم ایک بار جو ٹوٹے تو جڑ نہیں پائے
ہمیں تو روز یہ ذلت اٹھانی پڑتی ہے
مجھے خریدنے ایسے بھی لوگ آتے ہیں
کہ جن کے کہنے سے قیمت گھٹانی پڑتی ہے
ملال یہ ہے کہ یہ دونوں ہاتھ میرے ہیں
کسی کی چیز کسی سے چھپانی پڑتی ہے
تم اپنا نام بتا کر ہی چھوٹ جاتے ہو
ہمیں تو ذات بھی اپنی بتانی پڑتی ہے
غزل
بڑے حساب سے عزت بچانی پڑتی ہے
حسیب سوز