بڑے ہی ناز سے لایا گیا ہوں
میں کاندھا دے کر اٹھوایا گیا ہوں
فرشتو یوں نہ مجھ سے پیش آؤ
سندیسہ بھیج بلوایا گیا ہوں
خبر جس کی تھی وہ سارے مناظر
قریب مرگ دکھلایا گیا ہوں
گنوائی زندگی کی صبح کیسے
بہ وقت شام بتلایا گیا ہوں
جہاں سے پائی ہے سب نے فضیلت
اسی کوچے سے میں آیا گیا ہوں
ملے بھر بھر کے سب کو جام لیکن
میں اک قطرے کو ترسایا گیا ہوں
بظاہر تو گرائی اک عمارت
درون ذات میں ڈھایا گیا ہوں
عبیدؔ اس بات کی مجھ کو خوشی ہے
میں دنیا سے الگ پایا گیا ہوں
غزل
بڑے ہی ناز سے لایا گیا ہوں
عبید الرحمان