بڑے عجیب ہیں دنیا کے یہ نشیب و فراز
کوئی پڑھے کہاں جا کر محبتوں کی نماز
جہاں میں کچھ نہیں ملتا سوا عداوت کے
مگر نظر میں نہیں ہے کوئی بھی اس کا جواز
تمام زندگی اس جستجو میں گزری ہے
نہ کھل سکا کسی صورت بھی زندگی کا راز
بس اک نگاہ میں وہ دل کو چھین لیتے ہیں
کہاں سے لائے کوئی ان کا یہ حسیں انداز
کسی بھی حال میں گزرے یہ زندگی اپنی
مگر نہ دست طلب ہو سکے گا ہم سے دراز
کسی کا بھی نہیں اب اعتبار دنیا میں
کہیں تو کس کو کہیں ہم جہان میں ہم راز
غزل
بڑے عجیب ہیں دنیا کے یہ نشیب و فراز
کرن سنگھ کرن