بڑے ادب سے غرور ستمگراں بولا
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
تکو گے یوں ہی ہواؤں کا منہ بھلا کب تک
یہ ناخداؤں سے اک روز بادباں بولا
چمن میں سب کی زباں پر تھی میری مظلومی
مرے خلاف جو بولا تو باغباں بولا
یہی بہت ہے کہ زندہ تو ہو میاں صاحب
زمانہ سن کے مرے غم کی داستاں بولا
حصار جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا
اثر ہوا تو یہ تقریر کا کمال نہیں
مرا خلوص مخاطب تھا میں کہاں بولا
کہا نہ تھا کہ نوازیں گے ہم حفیظؔ تجھے
اڑا کے وہ مرے دامن کی دھجیاں بولا
غزل
بڑے ادب سے غرور ستمگراں بولا
حفیظ میرٹھی