EN हिंदी
بدن سے روح تلک ہم لہو لہو ہوئے ہیں | شیح شیری
badan se ruh talak hum lahu lahu hue hain

غزل

بدن سے روح تلک ہم لہو لہو ہوئے ہیں

ظفر عجمی

;

بدن سے روح تلک ہم لہو لہو ہوئے ہیں
تمہارے عشق میں اب جا کے سرخ رو ہوئے ہیں

ہوا کے ساتھ اڑی ہے محبتوں کی مہک
یہ تذکرے جو مری جان کو بہ کو ہوئے ہیں

وہ شب تو کٹ گئی جو پیاس کی تھی آخری شب
شریک گریۂ شبنم میں اب سبھو ہوئے ہیں

تمہارے حسن کی تشبیب ہی کہی ہے ابھی
چراغ جلنے لگے پھول مشک بو ہوئے ہیں

عجیب لطف ہے اس ٹوٹنے بکھرنے میں
ہم ایک مشت غبار اب چہار سو ہوئے ہیں

بجا ہے زندگی سے ہم بہت رہے ناراض
مگر بتاؤ خفا تم سے بھی کبھو ہوئے ہیں

میں تار تار ظفرؔ ہو گیا ہوں جس کے سبب
فلک کے چاک اسی فکر سے رفو ہوئے ہیں