بدن سے روح ہم آغوش ہونے والی تھی
پھر اس کے بعد سبک دوش ہونے والی تھی
نصیب پڑھ کے مرا علم غیب کی دیوی
یقین جانئے بے ہوش ہونے والی تھی
نہ صرف تیغ کہ پی کر مرے لہو کی شراب
زمین دشت بھی مدہوش ہونے والی تھی
نگار خانۂ دل میں یہ دھڑکنوں کی گھڑی
ترے نہ آنے سے خاموش ہونے والی تھی
میں ایک لڑکا وفاداریوں کا پرچم دار
وہ ایک لڑکی جفا کوش ہونے والی تھی
مری جوانی تلاش معاش میں ہاشمؔ
وطن سے دور فراموش ہونے والی تھی
غزل
بدن سے روح ہم آغوش ہونے والی تھی
ہاشم رضا جلالپوری