بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے
تو پھر یہ خواب کنارہ کہاں سے ملتا ہے
یہ دھوپ چھاؤں سلامت رہے کہ تیرا سراغ
ہمیں تو سایۂ ابر رواں سے ملتا ہے
ہم اہل درد جہاں بھی ہیں سلسلہ سب کا
تمہارے شہر کے آشفتگاں سے ملتا ہے
جہاں سے کچھ نہ ملے تو بھی فائدے ہیں بہت
ہمیں یہ نقد اسی آستاں سے ملتا ہے
فضا ہی ساری ہوئی سرخ رو تو حیرت کیا
کہ آج رنگ ہوا گل رخاں سے ملتا ہے
بچھڑ کے خاک ہوئے ہم تو کیا ذرا دیکھو
غبار جا کے اسی کارواں سے ملتا ہے
غزل
بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے
احمد محفوظ