EN हिंदी
بدن پر سبز موسم چھا رہے ہیں | شیح شیری
badan par sabz mausam chha rahe hain

غزل

بدن پر سبز موسم چھا رہے ہیں

ظفر صہبائی

;

بدن پر سبز موسم چھا رہے ہیں
مگر ارمان سب مرجھا رہے ہیں

پرانے غم کہاں ہجرت کریں گے
دکانوں پر نئے غم آ رہے ہیں

غلطیاں اگلے وقتوں سے ہوئی ہیں
مگر صدیوں سے ہم پچھتا رہے ہیں

یہاں ہے بوریا اب بھی ندارد
بہت دن بعد وہ گھر آ رہے ہیں

میاں بیرون و باطن ایک رکھو
منافق بھی ہمیں سمجھا رہے ہیں

سمجھتے ہیں ابھی وہ طفل مکتب
کھلونوں سے ہمیں بہلا رہے ہیں

غلاظت میں پڑی ہے روح جن کی
لباسوں کو بہت چمکا رہے ہیں

بھنور کا حکم ہے دریا پہ جاری
کنارے ناؤ سے کترا رہے ہیں

کروں کس کس کا ماتم باری باری
خزانے ڈوبتے ہی جا رہے ہیں