بدن میں جاگ اٹھی کپکپاہٹیں کیسی
میں سن رہا ہوں یہ فردا کی آہٹیں کیسی
مکیں کو یاد ہزیمت کی داستاں ہے مگر
تو اس کے گھر میں ہیں یہ جگمگاہٹیں کیسی
شکست دل کا جو احساس اب بھی زندہ ہے
تو پھر یہ ہونٹوں پہ ہیں مسکراہٹیں کیسی
وجود ٹوٹ رہا ہو تو کیسی نغمہ گری
جو دل سکوں سے نہ ہو گنگناہٹیں کیسی
فراز دار مقدر بنے کہ زہر کا جام
دیار شوق میں اب ہچکچاہٹیں کیسی
سمجھ کے سنگ جسے چھو لیا بدن تو نہ تھا
رگوں میں دوڑ گئیں سرسراہٹیں کیسی
قبول عام کا منصب جو میرے فن کو ملا
تو دوستوں کو ہوئیں تلملاہٹیں کیسی
غزل
بدن میں جاگ اٹھی کپکپاہٹیں کیسی
مرتضیٰ برلاس