بدن کی راکھ سے روشن شرارہ کر کے دیکھوں گا
میں اپنی جان کو اب کے ستارہ کر کے دیکھوں گا
وہ تنہا جستجو بے چین سی رہتی ہے آنکھوں میں
قیامت آ بھی جائے تو گوارہ کر کے دیکھوں گا
قضا اکثر مرے کوچے سے بے پردہ گزرتی ہے
اسے بھی کھیلتے ہنستے اشارہ کر کے دیکھوں گا
یہ سوچا ہے لب لرزاں پہ رکھ کر تشنگی ساری
تجھے بھی اے سمندر استعارہ کر کے دیکھوں گا
نہ چھت ہوگی نہ در ہوگا نہ صحن یار کا گوشہ
میں شہر عافیت میں یوں گزارہ کر کے دیکھوں گا
بدن کشتی بھنور خواہش ارادہ بادباں جیسا
جنوں دریا چلو خود کو کنارہ کر کے دیکھوں گا
سفر میں خیر و شر کے بعد وہ منزل بھی آئے گی
جہاں خورشیدؔ اپنا گوشوارہ کر کے دیکھوں گا
غزل
بدن کی راکھ سے روشن شرارہ کر کے دیکھوں گا
خورشید اکبر