EN हिंदी
بدن کے لقمۂ تر کو حرام کر لیا ہے | شیح شیری
badan ke luqma-e-tar ko haram kar liya hai

غزل

بدن کے لقمۂ تر کو حرام کر لیا ہے

امیر حمزہ ثاقب

;

بدن کے لقمۂ تر کو حرام کر لیا ہے
کہ خوان روح پہ جب سے طعام کر لیا ہے

بتاؤ اڑتی ہے بازار جاں میں خاک بہت
بتاؤ کیا ہمیں اپنا غلام کر لیا ہے

یہ آستانۂ حسرت ہے ہم بھی جانتے ہیں
دیا جلا دیا ہے اور سلام کر لیا ہے

مکاں اجاڑ تھا اور لا مکاں کی خواہش تھی
سو اپنے آپ سے باہر قیام کر لیا ہے

بس اب تمام ہو یہ وہم و اعتبار کا کھیل
بساط الٹ دی سبھی سارا کام کر لیا ہے

کسی سے خواہش گفتار تھی مگر ثاقبؔ
وفور شوق میں خود سے کلام کر لیا ہے