بدن کے لقمۂ تر کو حرام کر لیا ہے
کہ خوان روح پہ جب سے طعام کر لیا ہے
بتاؤ اڑتی ہے بازار جاں میں خاک بہت
بتاؤ کیا ہمیں اپنا غلام کر لیا ہے
یہ آستانۂ حسرت ہے ہم بھی جانتے ہیں
دیا جلا دیا ہے اور سلام کر لیا ہے
مکاں اجاڑ تھا اور لا مکاں کی خواہش تھی
سو اپنے آپ سے باہر قیام کر لیا ہے
بس اب تمام ہو یہ وہم و اعتبار کا کھیل
بساط الٹ دی سبھی سارا کام کر لیا ہے
کسی سے خواہش گفتار تھی مگر ثاقبؔ
وفور شوق میں خود سے کلام کر لیا ہے
غزل
بدن کے لقمۂ تر کو حرام کر لیا ہے
امیر حمزہ ثاقب