بدن کے دوش پہ سانسوں کا مقبرہ میں ہوں
خود اپنی ذات کا نوحہ ہوں مرثیہ میں ہوں
بلا سبب بھی نہیں یاسیت طبیعت میں
ازل سے خانہ بدوشی کا سلسلہ میں ہوں
مرا وجود تمہاری بقا کا ضامن ہے
تمہارے ان کہے جذبوں کا آئنہ میں ہوں
بہاریں جس پہ ہوں نازاں چمن بھی رشک کرے
نظر نواز رتوں کا وہ قافلہ میں ہوں
بچھڑ کے مجھ سے عبث منزلوں کی چاہت ہے
جدھر بھی جاؤ گے ہر سمت راستہ میں ہوں
ان آہٹوں پہ مری وہم کا گماں کیسا
میں کہہ چکا ہوں مری جان بارہا میں ہوں
غزل ہے کوئی تو میں بھی ہوں لازمی حصہ
کسی حیات کے مصرعے میں قافیہ میں ہوں
تمہیں خبر ہو تو دینا پتہ مجھے ذاکرؔ
جسے تلاش ہے خود کی وہ گمشدہ میں ہوں
غزل
بدن کے دوش پہ سانسوں کا مقبرہ میں ہوں
ذاکر خان ذاکر