بدن کے چاک پر ظرف نمو تیار کرتا ہوں
میں کوزہ گر ہوں اور مٹی کا کاروبار کرتا ہوں
مری خندق میں اس کے قرب کی قندیل روشن ہے
مرے دشمن سے کہہ دینا میں اس سے پیار کرتا ہوں
کہیں تو ریگ خفتہ کی طرح پانی میں پڑ رہتا
ورق گردانیٔ صحرا میں کیوں بیکار کرتا ہوں
اٹھائے پھر رہا ہوں حسرت تعمیر کی اینٹیں
جہاں سایہ نہیں ہوتا وہیں دیوار کرتا ہوں
جہاں بھی شام تن جائے محافظ سانپ کی صورت
میں اپنی ریز گاری کی وہیں انبار کرتا ہوں
اسی کو سامنے پا کر اسی کو بھینچ کر تابشؔ
سکوت نا شناسی کو سخن آثار کرتا ہوں
غزل
بدن کے چاک پر ظرف نمو تیار کرتا ہوں
عباس تابش