EN हिंदी
بدن کجلا گیا تو دل کی تابانی سے نکلوں گا | شیح شیری
badan kajla gaya to dil ki tabani se niklunga

غزل

بدن کجلا گیا تو دل کی تابانی سے نکلوں گا

ظفر گورکھپوری

;

بدن کجلا گیا تو دل کی تابانی سے نکلوں گا
میں سورج بن کے اک دن اپنی پیشانی سے نکلوں گا

نظر آ جاؤں گا میں آنسوؤں میں جب بھی روؤگے
مجھے مٹی کیا تم نے تو میں پانی سے نکلوں گا

تم آنکھوں سے مجھے جاں کے سفر کی مت اجازت دو
اگر اترا لہو میں پھر نہ آسانی سے نکلوں گا

میں ایسا خوبصورت رنگ ہوں دیوار کا اپنی
اگر نکلا تو گھر والوں کی نادانی سے نکلوں گا

ضمیر وقت میں پیوست ہوں میں پھانس کی صورت
زمانہ کیا سمجھتا ہے کہ آسانی سے نکلوں گا

یہی اک شے ہے جو تنہا کبھی ہونے نہیں دیتی
ظفرؔ مر جاؤں گا جس دن پریشانی سے نکلوں گا