بدن یار کی بو باس اڑا لائے ہوا
جان آئے جو وہاں ہو کے یہاں آئے ہوا
بدن یار کو بس چھو کے نہ اترائے ہوا
عطر کی بن کے لپٹ مجھ سے لپٹ جائے ہوا
ان کے کوچہ میں غبار اپنا اڑا کر لے جائے
مجھ پہ احسان کرے میرے بھی کام آئے ہوا
ہو ہوا دار سواری کا مرے دوش صبا
ناتواں وہ ہوں کہ اس تک مجھے پہنچائے ہوا
بندھ گئی باغ میں تیری تو ہوا باد صبا
ان کے کوچہ میں مری آہ کی بندھ جائے ہوا
اک نگہ باد ہوائی بھی تمہاری ہے ستم
جان اس تیر ہوائی سے نہ ہو جائے ہوا
کیوں نہ ہو باد بہاری مجھے یہ فرمائش
کیوں نہ باندھوں میں ہوا یار جو بندھوائے ہوا
کتنی نازک وہ پری ہے کہ ہوا دار اس کا
صورت تخت سلیماں رہا بالائے ہوا
تو ملے مہرؔ سے ایما یہی تاریخ ہو سچ
گلشن و بادہ و گل میں تجھے گرمائے ہوا
غزل
بدن یار کی بو باس اڑا لائے ہوا
حاتم علی مہر