بدن یار کی بو باس اڑا لائے ہوا
جان آ جائے جو واں ہو کے یہاں آئے ہوا
بدن یار کو بس چھو کے نہ اترائے ہوا
عطر کی بن کے لپٹ مجھ سے لپٹ جائے ہوا
ان کے کوچے میں غبار اپنا اڑا کر لے جائے
مجھ پہ احسان کرے میرے بھی کام آئے ہوا
بندھ گئی باغ میں تیری تو ہوا باد صبا
ان کے کوچے میں مری آہ کی بندھ جائے ہوا
کیوں نہ ہو باد بہاری مجھے یہ فرمائش
کیوں نہ باندھوں میں ہوا یار جو بندھوائے ہوا
تو ملے مہرؔ سے اے مہ یہی تاریخ ہو سچ
گلشن و بادہ و گل میں تجھے گرمائے ہوا
غزل
بدن یار کی بو باس اڑا لائے ہوا
حاتم علی مہر