بدلتی رت پہ ہواؤں کے سخت پہرے تھے
لہو لہو تھی نظر داغ داغ چہرے تھے
یہ راز کھل نہ سکا حرف نا رسا پہ مرے
صدائیں تیز بہت تھیں کہ لوگ بہرے تھے
وہ پوجنے کی سیاست سے خوب واقف تھا
وہی چڑھائے جو گیندے کے زرد سہرے تھے
جو بھائی لوٹ کے آئے کبھی نہ دریا سے
انہیں کے بازو قوی تھے بدن اکہرے تھے
اسی سبب سے مرا عکس ٹوٹ ٹوٹ گیا
اس آئنے میں کئی اور بھی تو چہرے تھے
سمندروں کا وہ پیاسا تھا اور اوس تھی میں
وہ ابر لوٹ گیا جس کے لب سنہرے تھے
ان آنچلوں پہ کوئی سجدہ ریز ہو نہ سکا
کہ جن کے رنگ بہت شوخ اور گہرے تھے
سماعتوں کے دھندلکوں میں کھو گئے شبنمؔ
وہ سارے لفظ جو پلکوں پہ آ کے ٹھہرے تھے

غزل
بدلتی رت پہ ہواؤں کے سخت پہرے تھے
رفیعہ شبنم عابدی