بدلتے موسموں میں آب و دانہ بھی نہیں ہوگا
کہ پیڑوں پر پرندوں کا ٹھکانہ بھی نہیں ہوگا
بہا لے جائیں گی موجیں کتاب زندگانی کو
سنانے کے لیے کوئی فسانہ بھی نہیں ہوگا
نواح جاں میں اک دن تم اتر کر دیکھ بھی لینا
تمہارے پاس یادوں کا خزانہ بھی نہیں ہوگا
تصور کی حدوں سے دور جا کر کیسے دیکھیں گے
اگر تم سے تعلق غائبانہ بھی نہیں ہوگا
کھلا در چھوڑ آئے تھے کہ ہجرت کا تقاضہ تھا
وہاں کیا لوٹ کر جائیں ٹھکانہ بھی نہیں ہوگا
غزل
بدلتے موسموں میں آب و دانہ بھی نہیں ہوگا
عبدالمنان صمدی