بدل کے دیکھ لیے زاویے اڑانوں کے
خرد سے طے نہ ہوئے فاصلے زمانوں کے
سمندروں کے تموج، نہنگ، وسعتیں، خوف
کہاں پہ حوصلے ٹوٹے ہیں بادبانوں کے
فلک سے روز اترتے ہیں روشنی کے خطوط
مگر نہ چمکے مقدر غریب خانوں کے
خزاں کا زہر سرایت ہوا ہے رگ رگ میں
گلاب چہرے ہوئے زرد گلستانوں کے
طلوع صبح کے آثار افق پہ ہیں شاید
چراغ بجھنے لگے ہیں عتاب خانوں کے
کرن کا نیزہ لیے ہاتھ میں چلو اشرفؔ
ہیں دیو راستے میں برف کی چٹانوں کے
غزل
بدل کے دیکھ لیے زاویے اڑانوں کے
اشرف جاوید