EN हिंदी
بدل کے بھیس وہ چہرا کہاں کہاں نہ ملا | شیح شیری
badal ke bhes wo chehra kahan kahan na mila

غزل

بدل کے بھیس وہ چہرا کہاں کہاں نہ ملا

احتشام حسین

;

بدل کے بھیس وہ چہرا کہاں کہاں نہ ملا
تلاش جس کی تھی وہ حسن جاوداں نہ ملا

کھڑا ہوں کب سے سر رہ گزار وقت‌ ندیم
میں جس کے ساتھ چلوں ایسا کارواں نہ ملا

خزاں گزر گئی لیکن گلوں کے رنگ ہیں زرد
بہار کو صلۂ خون کشتگاں نہ ملا

کہاں سے ذہن میں چھپ چھپ کے وہم آتے ہیں
کبھی یقیں کو سراغ رہ گماں نہ ملا

میں اہل فکر کی بستی بھی روند آیا ہوں
کہیں کوئی غم ہستی کا راز داں نہ ملا

کچل کے یاد کی لاشیں گزر گیا غم دہر
میں ڈھونڈھتا رہا زخموں کا بھی نشاں نہ ملا

اتر کے دیکھ چکا رنگ کے جزیروں میں
ترے شباب کا وہ رنگ ارغواں نہ ملا