EN हिंदी
بدل جائے گا سب کچھ یہ تماشا بھی نہیں ہوگا | شیح شیری
badal jaega sab kuchh ye tamasha bhi nahin hoga

غزل

بدل جائے گا سب کچھ یہ تماشا بھی نہیں ہوگا

شہرام سرمدی

;

بدل جائے گا سب کچھ یہ تماشا بھی نہیں ہوگا
نظر آئے گا وہ منظر جو سوچا بھی نہیں ہوگا

ہر اک لمحہ کسی شے کی کمی محسوس بھی ہوگی
کہیں بھی دور تک کوئی خلا سا بھی نہیں ہوگا

وہ آنکھیں بھی نہیں ہوں گی کہیں جو ان کہی باتیں
ہوا میں سبز آنچل کا وہ لہرا بھی نہیں ہوگا

سمٹ جائے گی دنیا ساعت امروز میں اک دن
شمار زیست میں دیروز و فردا بھی نہیں ہوگا

مگر قد روز و شب کا دیکھ کر حیران سب ہوں گے
مدار اپنا زمیں نے گرچہ بدلا بھی نہیں ہوگا

عجب ویرانیاں آباد ہوں گی قریہ در قریہ
شجر شاخوں پہ چڑیوں کا بسیرا بھی نہیں ہوگا