بدل جائے گا سب کچھ یہ تماشا بھی نہیں ہوگا
نظر آئے گا وہ منظر جو سوچا بھی نہیں ہوگا
ہر اک لمحہ کسی شے کی کمی محسوس بھی ہوگی
کہیں بھی دور تک کوئی خلا سا بھی نہیں ہوگا
وہ آنکھیں بھی نہیں ہوں گی کہیں جو ان کہی باتیں
ہوا میں سبز آنچل کا وہ لہرا بھی نہیں ہوگا
سمٹ جائے گی دنیا ساعت امروز میں اک دن
شمار زیست میں دیروز و فردا بھی نہیں ہوگا
مگر قد روز و شب کا دیکھ کر حیران سب ہوں گے
مدار اپنا زمیں نے گرچہ بدلا بھی نہیں ہوگا
عجب ویرانیاں آباد ہوں گی قریہ در قریہ
شجر شاخوں پہ چڑیوں کا بسیرا بھی نہیں ہوگا

غزل
بدل جائے گا سب کچھ یہ تماشا بھی نہیں ہوگا
شہرام سرمدی