بدل بدل کے تری بے رخی نے دیکھا ہے
یہ حادثہ بھی مری بے بسی نے دیکھا ہے
مجھے خبر ہے کہ ظلمت ٹھہر نہیں سکتی
مجھے پتا ہے اسے روشنی نے دیکھا ہے
مری غزل ہے سلگتے ہوؤں نے دیکھا ہے
کہ میرا عکس مری شاعری نے دیکھا ہے
میں جھوم جھوم گیا لے کے آسرا اس کا
کہ میری سمت اچانک خوشی نے دیکھا ہے
بچھڑ کے جیسے دوبارہ بھی آ ملا ہوں اسے
کچھ اس ادا سے مجھے زندگی نے دیکھا ہے
جو پورے چاند سے بڑھ کر حسین ہے یارو
وہ اک ستارہ ہے جس کو سبھی نے دیکھا ہے
یہ راز چھپ نہیں سکتا ہے میری بستی کا
ستم کا سیل رواں ہر کسی نے دیکھا ہے
تو جس بھی روپ میں آئے تو جان جائیں گے
خیال یار تجھے عاشقی نے دیکھا ہے
وہی نثارؔ ترابی جبیں کا حاصل ہے
وہ ایک سجدہ جسے بندگی نے دیکھا ہے

غزل
بدل بدل کے تری بے رخی نے دیکھا ہے
نثار ترابی