EN हिंदी
بد طالعی کا علاج کیا ہو | شیح شیری
bad-talai ka ilaj kya ho

غزل

بد طالعی کا علاج کیا ہو

امداد علی بحر

;

بد طالعی کا علاج کیا ہو
آزار بھی ہو تو لا دوا ہو

آئینے کی شکل خود نمائی ہو
بے دید ہو صورت آشنا ہو

حسن نمکین کو لے کے چاٹیں
جب اپنی ہی زیست بے مزا ہو

اے درد فراق کے مریضوں
گھرا لگے اس طرح کراہو

محرم کے جو بند کھول دے یار
بنگلہ مرے حق میں دل کشا ہو

کیا ہے مجھے دیتے ہو گلوری
چونے میں کہیں نہ سنکھیا ہو

دیکھے نہ مژہ کی سوزن ایسے
سے وے جو کسی کا دل پھٹا ہو

قاضی کو جو رند کچھ چٹا دیں
مسجد کی بغل میں مے کدہ ہو

پایا نہ مزاج مر مٹے ہم
کیا جانیے کس کے آشنا ہو

مغرور ہو اپنے حسن پر یار
کیا غم کوئی خوش ہو یا خفا ہو

یار آئے جو میرے گھر مراد آئے
جاگیں جو نصیب رت جگا ہو

سائے سے تمہارے بچ کے چلیے
دیوانہ بنانے کو بلا ہو

مشعل نہ سواری میں رہے سانہ
گھوڑا نہ کہیں چراغ پا ہو

وہ چال چلو کہ دل ہو تسخیر
حب کا تعویذ نقش پا ہو

چاہوں جو فلک سے فرش ماتم
ٹوٹا بھی نہ گہر میں نہ بوریا ہو

پھر میری طرف پھرا وہ قاتل
تسمہ نہ کہیں لگا رہا ہو

جو ایک کہو گے دو سنو گے
پرواہ نہیں خوش ہو یا خفا ہو

ممتاز ہیں کشتگان معشوق
ہے عین کرم اگر جفا ہو

وہ میری جو بوٹیاں اڑائیں
جرجیس کا مرتبہ عطا ہو

دم نکلے ہجوم غم میں کیوں کر
کچھ بھیڑ چھٹے تو راستہ ہو

دنیا سے اٹھے مریض فرقت
اے دار مسیح تو عصا ہو

سبزے میں چہ ذقن ہے خس پوش
ایسا نہ ہو خضر سے دغا ہو

ہم زخم جگر نہیں دکھاتے
آنکھیں نہ چراؤ خوش نگاہو

پیش آؤ ہر اک سے آئینہ دار
بیگانہ ہو یا کہ آشنا ہو

سیکھو یہ طریق آدمیت
جو چال چلو اسے نباہو

تلوار ابرو کی وہ خریدی
جو مفت سر اپنا بیچتا ہو

چمکے جو ستارۂ بلندی
طاؤس فلک مجھے ہما ہو

اے بحرؔ نہیں ہے ان تلون تیل
مفتوں نہ کسی کے خال کا ہو