بچپن کی یادوں کو بھلائے ایک زمانہ بیت گیا
ہم کو دیس سے باہر آئے ایک زمانہ بیت گیا
گلیوں اور بازاروں میں میں مارا مارا پھرتا ہوں
خوشیوں کی اک بزم سجائے ایک زمانہ بیت گیا
میری طرف بھی چشم کرم احباب کبھی فرمائیں گے
ان سے یہ امید لگائے ایک زمانہ بیت گیا
کس کو خبر کب پوری ہوگی خوابوں کی تعبیر مرے
نیندوں کو پلکوں پہ سجائے ایک زمانہ بیت گیا
اس دنیا میں اپنے پرائے کی ہے سحرؔ پہچان کسے
محفل جاں میں مجھ کو آئے ایک زمانہ بیت گیا

غزل
بچپن کی یادوں کو بھلائے ایک زمانہ بیت گیا
سحر محمود