بچے بھی اب دیکھ کے اس کو ہنستے ہیں
اس کے منہ پر رنگ برنگے سائے ہیں
جلتی آنکھیں لے کر بھی اتراتا ہوں
سب کے سپنے میرے اپنے سپنے ہیں
میرا بدن ہے کتنی روحوں کا مسکن
میری جبیں پر کتنے کتبے لکھے ہیں
جب سے کسی نے بیچ میں رکھ دی ہے تلوار
ہم سایے بھی ہم سایے سے ڈرتے ہیں
شہری بھونرے سے کہنا اے باد صبا
نیم کے پتے گاؤں میں اب بھی کڑوے ہیں
ایک ذرا سی ٹھیس لگی اور ٹوٹ گئے
دل کے رشتے کتنے نازک ہوتے ہیں
کس کو دکھاؤں اپنی نظر سے تیرا روپ
تیرے بھی تو ایک نہیں سو چہرے ہیں
غزل
بچے بھی اب دیکھ کے اس کو ہنستے ہیں
عنوان چشتی