بچا تھا ایک جو وہ رابطہ بھی ٹوٹ گیا
خفا جو خود سے ہوئے آئنہ بھی ٹوٹ گیا
فضائیں لاکھ بلائیں اڑان کیسے بھریں
پروں کے ساتھ ہی جب حوصلہ بھی ٹوٹ گیا
اس ایک پیڑ کے در پے تھیں آندھیاں کیا کیا
کہ اس کے ٹوٹتے زور ہوا بھی ٹوٹ گیا
پرندے ڈھونڈتے پھرتے ہیں پھر سے جائے اماں
شجر کے ساتھ ہی ہر گھونسلہ بھی ٹوٹ گیا
شفیقؔ وہ تو بنا ہے عجیب مٹی سے
کہ دے کے دستکیں سنگ صدا بھی ٹوٹ گیا

غزل
بچا تھا ایک جو وہ رابطہ بھی ٹوٹ گیا
شفیق سلیمی