EN हिंदी
بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا | شیح شیری
bach kar kahan main unki nazar se nikal gaya

غزل

بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا

وزیر علی صبا لکھنؤی

;

بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا
اک تیر تھا کہ صاف جگر سے نکل گیا

خود رفتگی ہی چشم حقیقت جو وا ہوئی
دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا

محو جمال رہ گئے ہم کچھ خبر نہیں
آیا کدھر سے یار کدھر سے نکل گیا

کیسا ہوا ہوا مرے رونے کو دیکھ کر
دامان ابر دیدۂ تر سے نکل گیا

رونے سے ہجر یار میں تسکین ہو گئی
دل کا بخار دیدۂ تر سے نکل گیا

آخر کیا اخیر شب وصل نے مجھے
دم پہلی بانگ‌ مرغ سحر سے نکل گیا

آہوں نے مجھ کو آتش غم سے نجات دی
مانند دود نار سقر سے نکل گیا

دکھلایا ناتوانی نے گھر یار کا مجھے
مثل نگاہ روزن در سے نکل گیا

ساقی کی چشم مست نے ایسے دھوئیں اڑائے
شعلہ سا ایک آتش تر سے نکل گیا

جوبن سے ڈھل چلی ہیں کہاں اب لٹک کی چال
وہ پیچ ان کے موئے کمر سے نکل گیا

اس گل کے داغ عشق نے ایسا کیا گداز
گھل گھل کے مغز شمع کے سر سے نکل گیا

مشکل ہے اے صباؔ پہ کرو جبر اختیار
ہے خیر دل جو عشق کے شر سے نکل گیا