بازیٔ عشق مرے بیٹھے ہیں
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
ہم ہیں اور گریۂ خونیں دن رات
پھول دامن میں بھرے بیٹھے ہیں
دل میں آہیں ہیں نظر سوئے فلک
تیر ترکش میں بھرے بیٹھے ہیں
میں بھی ہوں جان سے اپنی بیزار
وہ بھی غصے میں بھرے بیٹھے ہیں
کر چکے چاک گریباں جب سے
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
میری میت کے سرہانے وہ عزیزؔ
اشک آنکھوں میں بھرے بیٹھے ہیں
غزل
بازیٔ عشق مرے بیٹھے ہیں
عزیز لکھنوی