EN हिंदी
بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے | شیح شیری
bazar ki fasil bhi ruKHsar par male

غزل

بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے

احمد عظیم آبادی

;

بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے
دود چراغ جو کسی شوراب سے جلے

ماتھے کی بندی ہاتھ کی راکھی دعا کے بول
بیمار کے قریب مسیحائی میں ڈھلے

کاغذ کی ناؤ ٹوٹا دیا تاش کا محل
اپنے ہیں ہم جلیس یہی چند منچلے

اتنا تو اہتمام رہے آرتی کے ساتھ
گیہوں کی فصل کے لیے شوراب بھی ڈھلے

احمدؔ اب آفتاب کے اندر بھی آئیے
طے ہو چکے تمام اجالوں کے مرحلے