بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے
دود چراغ جو کسی شوراب سے جلے
ماتھے کی بندی ہاتھ کی راکھی دعا کے بول
بیمار کے قریب مسیحائی میں ڈھلے
کاغذ کی ناؤ ٹوٹا دیا تاش کا محل
اپنے ہیں ہم جلیس یہی چند منچلے
اتنا تو اہتمام رہے آرتی کے ساتھ
گیہوں کی فصل کے لیے شوراب بھی ڈھلے
احمدؔ اب آفتاب کے اندر بھی آئیے
طے ہو چکے تمام اجالوں کے مرحلے
غزل
بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے
احمد عظیم آبادی