EN हिंदी
باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں | شیح شیری
baaton baaton mein hi unwan badal jate hain

غزل

باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں

وجے شرما عرش

;

باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں
کتنی رفتار سے انسان بدل جاتے ہیں

چوریاں ہو نہیں پاتیں تو یہی ہوتا ہے
اپنی بستی کے نگہبان بدل جاتے ہیں

کوئی منزل ہی نہیں ٹھہریں مرادیں جس پر
وقت بدلے بھی تو ارمان بدل جاتے ہیں

اس کے دامن سے امیدوں کے گلوں کو چن کر
زندگی کے سبھی امکان بدل جاتے ہیں