باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں
کتنی رفتار سے انسان بدل جاتے ہیں
چوریاں ہو نہیں پاتیں تو یہی ہوتا ہے
اپنی بستی کے نگہبان بدل جاتے ہیں
کوئی منزل ہی نہیں ٹھہریں مرادیں جس پر
وقت بدلے بھی تو ارمان بدل جاتے ہیں
اس کے دامن سے امیدوں کے گلوں کو چن کر
زندگی کے سبھی امکان بدل جاتے ہیں

غزل
باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں
وجے شرما عرش