EN हिंदी
باطل و نا حق سے امید کرم کرتے رہے | شیح شیری
baatil-o-na-haq se ummid-e-karam karte rahe

غزل

باطل و نا حق سے امید کرم کرتے رہے

تنویر گوہر

;

باطل و نا حق سے امید کرم کرتے رہے
جو نہ کرنا تھا ہمیں وہ کام ہم کرتے رہے

ضبط کر سکتے تھے آخر ضبط ہم کرتے رہے
کام تھا جن کا ستم کرنا ستم کرتے رہے

زندگی بھر مسکرائے بے سبب ہم دوستو
زندگی بھر زیست کی تلخی کو کم کرتے رہے

اے قضا تو دیر سے آئی مگر خوش آمدید
عمر بھر ہم یاد تجھ کو دم بدم کرتے رہے

عمر بھر ہم نے کیا ہے دوسروں کا احترام
یعنی خود کو عمر بھر ہم محترم کرتے رہے

عمر پڑھنے لکھنے کی غفلت میں گزری اور پھر
زندگی بھر ہاتھ ارمان قلم کرتے رہے

کیا نمازیں ہیں ہماری کیا ہماری بندگی
کھوٹ نیت میں رہا اور سر کو خم کرتے رہے