باتیں ہیں واعظوں کی عذاب و ثواب کیا
دو دن کی زندگی میں حساب و کتاب کیا
چاہی وفائے وعدہ تو پایا جواب کیا
ہاں کہئے تو یہ آپ نے دیکھا ہے خواب کیا
دل میں غضب کے جوش ہیں توبہ کی خیر ہو
کرتی ہے دیکھیے یہ شب ماہتاب کیا
یہ سب سہی کہ زلزلہ ہے تا فلک مگر
شوخی تو اپنی دیکھ مرا اضطراب کیا
اس نے تو جو لکھا سو لکھا پر غضب یہ ہے
اک ایک پوچھتا ہے کہ آیا جواب کیا
اچھا گمان و وہم ہمارے غلط سہی
کہئے تو کہتی ہے نگہ پر حجاب کیا
اے ہم نشیں بھلا وہ اگر سن کے حال دل
کہہ دیں کہ سب غلط ہے پھر اس کا جواب کیا
کرتے ہیں لوگ واعظ و مائلؔ پہ طعن کیوں
پیتا نہیں جہان میں کوئی شراب کیا
غزل
باتیں ہیں واعظوں کی عذاب و ثواب کیا
مرزا مائل دہلوی