بات وہ بات نہیں ہے جو زباں تک پہنچے
آنکھ وہ آنکھ ہے جو سر نہاں تک پہنچے
قدر تعظیم کشش شوق محبت اظہار
روکئے دل کو نہ جانے یہ کہاں تک پہنچے
دل یہ ہر گام پہ کہتا ہے ٹھہر گھر ہے یہی
فرق سے تا بہ قدم آنکھ جہاں تک پہنچے
کس کو فرصت ہے سنے درد بھری ہے روداد
کون بے چارگیٔ خستہ دلاں تک پہنچے
جان لینا یہ اسی لمحہ کہ دل ٹوٹ گیا
بات جب ضبط سے بڑھ جائے فغاں تک پہنچے
مڑ کے دیکھا بھی نہیں دل کے لہو کی جانب
شعر کی داد یہ دی حسن بیاں تک پہنچے
غزل
بات وہ بات نہیں ہے جو زباں تک پہنچے
سید حامد