EN हिंदी
بات مہندی سے لہو تک آ گئی | شیح شیری
baat mehndi se lahu tak aa gai

غزل

بات مہندی سے لہو تک آ گئی

ظفر کلیم

;

بات مہندی سے لہو تک آ گئی
گفتگو اب تم سے تو تک آ گئی

اب وہ شغل چاک دامانی کہاں
اب طبیعت تو رفو تک آ گئی

جان جائے یار ہے اب ڈر نہیں
بات اپنی آبرو تک آ گئی

آرزو تھی جس کو پانے کی ہمیں
جستجو اس آرزو تک آ گئی

بوٹے بوٹے سے نمایاں ہے بہار
ڈالی ڈالی رنگ و بو تک آ گئی

وصل کی شب اور اتنی مختصر
باتوں باتوں میں وضو تک آ گئی