بات مہندی سے لہو تک آ گئی
گفتگو اب تم سے تو تک آ گئی
اب وہ شغل چاک دامانی کہاں
اب طبیعت تو رفو تک آ گئی
جان جائے یار ہے اب ڈر نہیں
بات اپنی آبرو تک آ گئی
آرزو تھی جس کو پانے کی ہمیں
جستجو اس آرزو تک آ گئی
بوٹے بوٹے سے نمایاں ہے بہار
ڈالی ڈالی رنگ و بو تک آ گئی
وصل کی شب اور اتنی مختصر
باتوں باتوں میں وضو تک آ گئی
غزل
بات مہندی سے لہو تک آ گئی
ظفر کلیم