EN हिंदी
بات کچھ یوں ہے کہ یہ خوف کا منظر تو نہیں | شیح شیری
baat kuchh yun hai ki ye KHauf ka manzar to nahin

غزل

بات کچھ یوں ہے کہ یہ خوف کا منظر تو نہیں

تنہا تماپوری

;

بات کچھ یوں ہے کہ یہ خوف کا منظر تو نہیں
لاش دریا میں غنیمت ہے کہ بے گھر تو نہیں

دور صحرائے بدن سے نکل آیا ہوں مگر
ڈھونڈھتا ہوں میں جسے وہ مرے اندر تو نہیں

خواہشیں روز نئی روز نئی روز نئی
یہ مرا ذہن بھی اخبار کا دفتر تو نہیں

دور تک لے گئی کیوں جنبش انگشت مجھے
میں اشارے ہی سے پھینکا ہوا پتھر تو نہیں

بھسماسر بن گئی ہے آج مشینی دنیا
کیسی دستک ہے جگت موہنی در پر تو نہیں