EN हिंदी
بات کرنے کا نہیں سامنے آنے کا نہیں | شیح شیری
baat karne ka nahin samne aane ka nahin

غزل

بات کرنے کا نہیں سامنے آنے کا نہیں

احمد رضوان

;

بات کرنے کا نہیں سامنے آنے کا نہیں
وہ مجھے میری اذیت سے بچانے کا نہیں

دور اک شہر ہے جو پاس بلاتا ہے مجھے
ورنہ یہ شہر کہیں چھوڑ کے جانے کا نہیں

کیا یوں ہی رات کے پہلو میں کٹے گی یہ حیات
کیا کوئی شہر کے لوگوں کو جگانے کا نہیں

اجنبی لوگ ہیں میں جن میں گھرا رہتا ہوں
آشنا کوئی یہاں میرے فسانے کا نہیں

یہ جو اک شہر ہے یہ جس پہ تصرف ہے مرا
میں یہاں کوئی بھی دیوار بنانے کا نہیں

بعد مدت کے جو آیا تھا وہی لوٹ گیا
اب یہاں کوئی چراغوں کو جلانے کا نہیں

آنے والی ہے نئی صبح ذرا دیر کے بعد
کیا کوئی راہ تمنا کو سجانے کا نہیں