بات کیسی بھی ہو انداز نیا دیتا تھا
ایسے ہنستا تھا کہ وہ سب کو رلا دیتا تھا
کوئی مایوس جو ملتا تو نہ رہتا بے آس
رنگ چہرے پہ تبسم کا سجا دیتا تھا
عمر بھر ریت پہ چلتا رہا لیکن وہ شخص
تپتی راہوں پہ ہری گھاس بچھا دیتا تھا
کوئی انجام محبت کی جو باتیں کرتا
پھول کے چہرے پہ شبنم وہ دکھا دیتا تھا
مری غلطی پہ بگڑتا بھی بہت تھا لیکن
اور پھر مجھ کو وہ جی بھر کے دعا دیتا تھا
غزل
بات کیسی بھی ہو انداز نیا دیتا تھا
پریم بھنڈاری