بات کہنے کے لئے بات بنائی نہ گئی
ہم سے بارات فریبوں کی سجائی نہ گئی
آج بھی دار کے تختہ سے صدا آتی ہے
حق کی آواز ستم گر سے دبائی نہ گئی
دوست کرتے ہیں حسد اس لیے تیری تصویر
ماسوا دل کے کہیں اور سجائی نہ گئی
غم کی تصویر بنانے کو میں جب بھی بیٹھا
ان کی مسکان ابھر آئی بنائی نہ گئی
نئی تہذیب کے خاکوں کو سنوارا ہم نے
ہم سے اخلاق کی تصویر بنائی نہ گئی
جانے کیا سوجھی مری قبر پر آ کر ان سے
گل چڑھائے نہ گئے شمع جلائی نہ گئی
میں تو بات آئی گئی کر کے چلا آیا تھا
ہو گئی بات پرائی وہ دبائی نہ گئی
اس نے ہنگاموں سے بہلائی ہے اپنی دنیا
وقت سے امن کی شہنائی بجائی نہ گئی
چرخؔ دیکھے جو جوانی کے ابھرتے جلوے
زندگی اپنی گناہوں سے بچائی نہ گئی
غزل
بات کہنے کے لئے بات بنائی نہ گئی
چرخ چنیوٹی