بات کا اپنی نہ جب پایا جواب
ہم یہ سمجھے وہ دہن ہے لا جواب
باتیں سنوائیں لب خاموش نے
ورنہ ہم دیتے اسے کیا کیا جواب
بے نشاں ہے وہ کمر شکل دہن
کون سی شے ہے نہیں جس کا جواب
سادہ کاغذ بھیجا نامہ کے عوض
واں سے آیا بھی تو صاف آیا جواب
پوچھتا گر اس کمر کا میں نشاں
غیب سے ملتا مجھے اس کا جواب
تم جو کچھ کہتے زبان تیغ سے
میں دہان زخم سے دیتا جواب
آج مجھ سے بات اگر کرتے نہیں
دیں گے یہ بت کل خدا کو کیا جواب
بے دہن وہ ہے تو میں ہوں بے زباں
یار کی صورت ہوں میں بھی لا جواب
کہہ کے اک مصرع مہ نو رہ گیا
ہو سکا کب بیت ابرو کا جواب
بات سیدھی کی جو تھا مذکور قد
ذکر ابرو میں دیا ٹیڑھا جواب
کیجیے کیا بات اس کج طبع سے
دے گا چرخ واژگوں الٹا جواب
باتیں کرتا ہے جو پردہ چھوڑ کر
مجھ کو دیتا ہے وہ در پردہ جواب
آ گیا اے وائے پیغام اجل
پر نہ قاصد لے کے کچھ آیا جواب
سن کے بیتیں میرے حاسد چپ رہے
اے وزیرؔ اپنا سخن ہے لا جواب
غزل
بات کا اپنی نہ جب پایا جواب
خواجہ محمد وزیر لکھنوی