EN हिंदी
بات جب دوستوں کی آتی ہے | شیح شیری
baat jab doston ki aati hai

غزل

بات جب دوستوں کی آتی ہے

خمارؔ بارہ بنکوی

;

بات جب دوستوں کی آتی ہے
دوستی کانپ کانپ جاتی ہے

مجھ سے اے دوست پھر خفا ہو جا
عشق کو نیند آئی جاتی ہے

اب قیامت سے کیا ڈرے کوئی
اب قیامت تو روز آتی ہے

بھاگتا ہوں میں زندگی سے خمارؔ
اور یہ ناگن ڈسے ہی جاتی ہے