بات ہو دیر و حرم کی یا وطن کی بات ہو
بات جب ہو دوستوں حسن چمن کی بات ہو
دیش کی خاطر خوشی سے جو لٹا دیتے ہیں جاں
ان شہیدان وطن کے بانکپن کی بات ہو
قوم و مذہب کیا کسی کا اور کیا ہے رنگ و نسل
ایسی باتیں چھوڑ کر بس علم و فن کی بات ہو
عصر حاضر نے ہمارا دل بھی پتھر کر دیا
لازمی ہے اب وفاؤں کے چلن کی بات ہو
اس عمل سے زندگی ہو جائے گی آساں بہت
ایسا کچھ مت بولئے جس میں چبھن کی بات ہو
ایک ہی رنگت ہے سب کے خون کی تو دوستو
کیوں ہمارے بیچ شیخ و برہمن کی بات ہو
مل کے بیٹھے ہیں تو یارو اب سنائیں حال دل
کچھ تمہارے دل کی ہو کچھ میرے من کی بات ہو
غزل
بات ہو دیر و حرم کی یا وطن کی بات ہو
شایان قریشی