بات ایک جیسی ہے ہجو یا قصیدہ لکھ
بے نیازیاں اس کی ہو کے آب دیدہ لکھ
جمع کر یہ آوازیں میری خود کلامی کی
اور ان کے املے سے درد کا جریدہ لکھ
ذہن کی ہدایت ہے کاتب زمانہ کو
عقل کی دلیلوں سے آج کا عقیدہ لکھ
رنگ و روشنائی کی حد اوج سے اوپر
ہو سکے تو اندازاً قامت کشیدہ لکھ
دیکھ ان خلاؤں میں نقطہ ہائے نور اس کے
تو بھی ایک خالق ہے شعر چیدہ چیدہ لکھ
غزل
بات ایک جیسی ہے ہجو یا قصیدہ لکھ
آفتاب اقبال شمیم