بات دل کو مرے لگی نہیں ہے
میرے بھائی یہ شاعری نہیں ہے
جانتی ہے مرے چراغ کی لو
کون سے گھر میں روشنی نہیں ہے
وہ تعلق بھی مستقل نہیں تھا
یہ محبت بھی دائمی نہیں ہے
میں جو قصہ سنا چکا تو کھلا
کوئی دیوار بولتی نہیں ہے
دیکھنے والی آنکھ بھی تو ہو
کون دریا میں جل پری نہیں ہے
بزدلا چھپ کے وار کرتا ہے
تجھ کو تہذیب دشمنی نہیں ہے
کیا کروں اس بہشت کو جس میں
ایک بوتل شراب کی نہیں ہے
تجھ سے ملنا بھی ہے نہیں بھی مجھے
اور طبیعت الجھ رہی نہیں ہے
کون سے شہر کے چراغ ہو تم
تم میں دم بھر کی روشنی نہیں ہے
جس کا چرچا ہے شہر میں عامیؔ
وہ غزل تو ابھی کہی نہیں ہے
غزل
بات دل کو مرے لگی نہیں ہے
عمران عامی