EN हिंदी
بات دل کی زبان پر آئی | شیح شیری
baat dil ki zaban par aai

غزل

بات دل کی زبان پر آئی

ریاضؔ خیرآبادی

;

بات دل کی زبان پر آئی
آفت اب میری جان پر آئی

آرزو کیوں زبان پر آئی
ان کی زلف اڑ کے کان پر آئی

کھنچتے ہی اڑ گئی وہ بادہ فروش
چوکھی مے کب دکان پر آئی

ہو گئی اونچی ان کے بام سے آہ
آفت اب آسمان پر آئی

کی فرشتوں نے جب صراحت جرم
ہنسی ان کے بیان پر آئی

جب چلی آسماں سے کوئی بلا
سیدھی میرے مکان پر آئی

غیر کا ساز بن کے راز رہا
بات سب پاسبان پر آئی

روکے رکتا نہیں ہے سیل سرشک
اب تباہی مکان پر آئی

آئی بوتل بھی میکدے سے ریاضؔ
جب گھٹا آسمان پر آئی