EN हिंदी
بات بگڑی ہوئی بنی سی رہی | شیح شیری
baat bigDi hui bani si rahi

غزل

بات بگڑی ہوئی بنی سی رہی

بکل دیو

;

بات بگڑی ہوئی بنی سی رہی
جاں نہیں نکلی جانکنی سی رہی

بات کھنچتی چلی گئی دل سے
عمر بھر پھر تنا تنی سی رہی

حسن شب صبح دم ڈھلا لیکن
پیشتر اس کے چاندنی سی رہی

بحث ہم کو نہ تھی مناظر سے
یوں تھا بینائی سے ٹھنی سی رہی

اس کا رد عمل تھا خنجر سا
عشق کہنے کو تھا انی سی رہی

سمت دنیا کے ہم گئے ہی نہیں
اس علاقے سے دشمنی سی رہی

کر کے اک قافلہ غبار غبار
راہ کچھ دیر ان منی سی رہی