بات بس سے نکل چلی ہے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبیعت بہل چلی ہے
اشک خوناب ہو چلے ہیں
غم کی رنگت بدل چلی ہے
یا یوں ہی بجھ رہی ہیں شمعیں
یا شب ہجر ٹل چلی ہے
لاکھ پیغام ہو گئے ہیں
جب صبا ایک پل چلی ہے
جاؤ اب سو رہو ستارو
درد کی رات ڈھل چلی ہے
غزل
بات بس سے نکل چلی ہے
فیض احمد فیض